Iztirab

Iztirab

بلاوا

نگر نگر کے دیس دیس کے پربت ٹیلے اور بیاباں
ڈھونڈ رہے ہیں اب تک مجھ کو کھیل رہے ہیں میرے ارماں
میرے سپنے میرے آنسو ان کی چھلنی چھاؤں میں جیسے
دھول میں بیٹھے کھیل رہے ہوں بالک باپ سے روٹھے روٹھے
دن کے اجالے سانجھ کی لالی رات کے اندھیارے سے کوئی
مجھ کو آوازیں دیتا ہے آؤ آؤ آؤ آؤ
میری روح کی جوالا مجھ کو پھونک رہی ہے دھیرے دھیرے
میری آگ بھڑک اٹھی ہے کوئی بجھاؤ کوئی بجھاؤ
میں بھٹکا بھٹکا پھرتا ہوں کھوج میں تیری جس نے مجھ کو
کتنی بار پکارا لیکن ڈھونڈ نہ پایا اب تک تجھ کو
میرے سنگی میرے ساتھی تیرے کارن چھوٹ گئے ہیں
تیرے کارن جگ سے میرے کتنے ناطے ٹوٹ گئے ہیں
میں ہوں ایسا پات ہوا میں پیڑ سے جو ٹوٹے اور سوچے
دھرتی میری گور ہے یا گھر یہ نیلا آکاش جو سر پر
پھیلا پھیلا ہے اور اس کے سورج چاند ستارے مل کر
میرا دیپ جلا بھی دیں گے یا سب کے سب روپ دکھا کر
ایک اک کر کے کھو جائیں گے جیسے میرے آنسو اکثر
پلکوں پر تھرا تھرا کر تاریکی میں کھو جاتے ہیں
جیسے بالک مانگ مانگ کر نئے کھلونے سو جاتے ہیں
اختر الایمان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *