Iztirab

Iztirab

بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف

بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف 
ہے باغباں کی گرمئ بازار ہر طرف 
کیا فصل گل پھر آئی جو کرتے ہیں زمزمہ 
دام قفس میں مرغ گرفتار ہر طرف 
کوٹھے پہ اس کے پھینکوں میں کس راہ سے کمند 
کم بخت پاسباں تو ہیں بیدار ہر طرف 
تودے جہاں تھے اس کے شہیدوں کی خاک کے 
تیر اس نے مارے ناز سے دو چار ہر طرف 
جب اس کی برق حسن سے پردہ ہوا ہے وا 
ضائع ہوئے ہیں طالب دیدار ہر طرف 
عاشق کو اس گلی سے نکالیں تھے جب بہ زور 
پڑتی تھی چشم حسرت دیدار ہر طرف 
دعوت ہے کس کی بزم فلک میں جو کب سے ہیں 
آنکھیں لگائے رخنۂ دیوار ہر طرف 
ثابت بچا نہ کافر و دیں دار تک کوئی 
تیغ نگہ نے اس کی کیے وار ہر طرف 
سودے میں جستجو کے تری اے متاع حسن 
سر مارتے پھریں ہیں خریدار ہر طرف 
پرواز کا جو شوق ہے بلبل کے مشت پر 
کنج قفس میں اڑتے ہیں ناچار ہر طرف 
حیراں ہوں میں کہ کس کا یہ کوچہ ہے جس کے بیچ 
ٹکڑے ہوئے پڑے ہیں طرح دار ہر طرف 
غوغا ہے شرق و غرب و جنوب و شمال میں 
فتنے جگا گئی تری رفتار ہر طرف 
گو میں ہوا مقیم تو کیا ڈر ہے مصحفیؔ 
سیر و سفر میں ہیں مرے اشعار ہر طرف 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *