Iztirab

Iztirab

بگولا

جون کا تپتا مہینہ تمتماتا آفتاب 
ڈھل چکا ہے دن کے سانچے میں جہنم کا شباب 
دوپہر اک آتش سیال برساتی ہوئی 
سینۂ کہسار میں لاوا سا پگھلاتی ہوئی 
وہ جھلستی گھاس وہ پگڈنڈیاں پامال سی 
نہر کے لب خشک سے ذروں کی آنکھیں لال سی 
چلچلاتی دھوپ میں میدان کو چڑھتا بخار 
آہ کے مانند اٹھتا ہلکا ہلکا سا غبار 
دیکھ وہ میدان میں ہے اک بگولا بے قرار 
آندھیوں کی گود میں ہو جیسے مفلس کا مزار 
چاک پر جیسے بنائے جا رہے ہوں زلزلے 
یا جنوں طے کر رہا ہو گردشوں کے مرحلے 
ڈھالنا چاہے زمیں جس طرح کوئی آسماں 
جیسے چکر کھا کے نکلے توپ کے منہ سے دھواں 
مل رہا ہو جس طرح جوش بغاوت کو فراغ 
جنگ چھڑ جانے پہ جیسے ایک لیڈر کا دماغ 
خشمگیں ابرو پہ ڈالے خاک آلودہ نقاب 
جنگلوں کی راہ سے آئے صفیر انقلاب 
یوں بگولے میں ہیں تپتے سرخ ذرے بے قرار 
جس طرح افلاس کے دل میں بغاوت کے شرار 
کس قدر آزاد ہے یہ روح صحرا یہ بھی دیکھ 
کس طرح ذروں میں ہے طوفان برپا یہ بھی دیکھ 
اٹھ بگولے کی طرح میدان میں گاتا نکل 
زندگی کی روح ہر ذرے میں دوڑاتا نکل 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *