Iztirab

Iztirab

بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں

بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں 
ٹوٹا جال سمندر پر پھیلائے ہوئے ہوں 
وحشت کرنے سے بھی دل بیزار ہوا ہے 
دشت و سمندر آنچل میں سمٹائے ہوئے ہوں 
وہ خوشبو بن کر آئے تو بے شک آئے 
میں بھی دست صبا سے ہاتھ ملائے ہوئے ہوں 
ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے کچھ رنگ گھلے تھے 
ان کی مہندی آج تلک بھی رچائے ہوئے ہوں 
جن باتوں کو سننا تک بار خاطر تھا 
آج انہیں باتوں سے دل بہلائے ہوئے ہوں 

زہرا نگاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *