Iztirab

Iztirab

بھوک

علی الصباح کہ دنیا تھی محو خواب ابھی
چھپا تھا حجرہ مشرق میں آفتاب ابھی
فلک پہ انجمن شب کا تھا اثر باقی
گھرا ہوا تھا ستاروں میں ماہتاب ابھی
فضائیں گم تھیں دھندلکے میں آخر شب کے
عروش صبح کے چہرے پہ تھی نقاب ابھی
لیا نہ تھا ابھی سورج نے بوسۂ عارض
سلونے رنگ میں نکھرا نہ تھا شباب ابھی
نہ آئی تھی ابھی سرخی افق کے چہرے پر
شفق نے چرخ پہ چھڑکی نہ تھی شراب ابھی
غنودگی میں فضائیں تھیں سر جھکائے ہوئے
میں جا رہا تھا سڑک پر قدم بڑھائے ہوئے
مگر تھا پیش نظر اک مرقعہ ادبار
دل غریب کی صورت اداس تھا بازار
بجز صدائے نفس کے کہیں نہ تھی آواز
بجز ہوائے سحر کے کوئی نہ تھا بیدار
وہ کوٹھیاں وہ طرب خانہ ہائے دولت و عیش
جہاں تھے آخر شب تک حیات کے آثار
وہاں بھی موت کے بیٹھے ہوئے تھے پہرے دار
نہ شمع تھی نہ پتنگے نہ بزم تھی نہ بہار
گداگروں کے کئی قافلے بہ حال تباہ
پڑے ہوئے تھے سر راہ نیند میں سرشار
یکایک ایک طرف اٹھ گئی جو میری نظر
عجب طرح کا نظر آیا سامنے منظر
گلی کے موڑ پر اک آدمی پریشاں حال
کہ جس کی شام جوانی تھی سوگوار زوال
جھکی جھکی ہوئی نظریں رندھا رندھا ہوا دل
دھنسی دھنسی ہوئی آنکھیں سٹے سٹے ہوئے گال
برہنہ جسم خمیدہ کمر رمیدہ حواس
بدن نڈھال طبیعت نڈھال روح نڈھال
زبان لغزش پا پر فسانہ شب و روز
سطور چین جبیں میں حدیث ماضی و حال
سمجھ گیا میں اسے دیکھتے ہی حال اس کا
کہ اس کی شکل بیک وقت تھی جواب و سوال
بساط کاک پہ بیٹھا ہوا تھا خاک بسر
پڑی تھی سامنے کوڑے پہ کچھ سڑی ہوئی دال
سگ گرسنہ کی مانند چاٹتا تھا اسے
برا تھا بھوک سے کچھ اس قدر غریب کا حال
میں اس مہیب نظارے کی تاب لا نہ سکا
قدم جمے کے جمے رہ گئے اٹھا نہ سکا
رضا نقوی واہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *