بہار آئی ہے بھر دے بادۂ گلگوں سے پیمانہ رہے لاکھوں برس ساقی ترا آباد میخانہ اسی رشکِ پری پر جان دیتا ہوں میں دیوانہ ادا جس کی ہے بانکی، ترچھی چتون، چال مستانہ نبھے کیوں کر ہمارا اس پری پیکر کے یارانہ وہ بے پروا میں سودائی وہ سنگیں دل، میں دیوانہ ہمارے اور تمہارے عشق کا چرچا ہے شہروں میں کوئی سنتا نہیں ہے لیلیٰ و مجنوں کا افسانہ ظفرؔ وہ زاہدِ بے درد کی ’’ہُو حق‘‘ سے بہتر ہے کرے گر رند دردِ دل سے ہائے ہُوئے مستانہ