Iztirab

Iztirab

بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں

بہت دنوں سے کھلا در تلاش کرتا ہوں
میں اپنے گھر میں کھڑا گھر تلاش کرتا ہوں
پلک پہ قطرۂ شبنم اٹھائے صدیوں سے
ترے کرم کا سمندر تلاش کرتا ہوں
نظر میں جیت کی تصدیق کا سوال لیے
گلی گلی میں سکندر تلاش کرتا ہوں
بدن بدن سے خلوص و وفا کی خوشبوئیں
میں سونگھ کر نہیں چھوکر تلاش کرتا ہوں
لبوں کی پیاس بجھانے کے واسطے ساقی
کسی بزرگ کا ساغر تلاش کرتا ہوں
جواہرات کے اک ڈھیر پر کھڑا ہو کر
نئی پسند کا پتھر تلاش کرتا ہوں
تو آندھیوں کے تشدد کی بات کرتا ہے
میں اپنے ٹوٹے ہوئے پر تلاش کرتا ہوں
کنول ضیائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *