Iztirab

Iztirab

بیتے ہوئے دن

کیا حال کہیں اس موسم کا 
جب جنس جوانی سستی تھی 
جس پھول کو چومو کھلتا تھا 
جس شے کو دیکھو ہنستی تھی 
جینا سچا جینا تھا 
ہستی عین ہستی تھی 
افسانہ جادو افسوں تھا 
غفلت نیندیں مستی تھی 
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ 
جب دل کی بستی بستی تھی 
غفلت نیندیں ہستی تھی 
آنکھیں کیا پیمانے تھے 
ہر روز جوانی بکتی تھی 
ہر شام و سحر بیعانے تھے 
ہر خار میں اک بت خانہ تھا 
ہر پھول میں سو مے خانے تھے 
کالی کالی زلفیں تھیں 
گورے گورے شانے تھے 
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ 
جب دل کی بستی بستی تھی 
گورے گورے شانے تھے 
ہلکی پھلکی بانہیں تھیں 
ہر گام پہ خلوت خانے تھے 
ہر موڑ پہ عشرت گاہیں تھیں 
طغیان خوشی کے آنسو تھے 
تکمیل طرب کی آہیں تھیں 
عشوے چہلیں غمزے تھے 
پلتیں خوشیاں چاہیں تھیں 
ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ 
.جب دل کی بستی بستی تھی

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *