Iztirab

Iztirab

بیزار زندگی سے دل مضمحل نہیں

بیزار زندگی سے دل مضمحل نہیں
شاید بقدر ظرف ابھی درد دل نہیں
اپنا تو اس نے ساتھ نبھایا ہے عمر بھر
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ غم مستقل نہیں
دیوانہ مفاد ہے بیگانہ خلوص
وہ اہل عقل و ہوش سہی اہل دل نہیں
شعلے کہاں سے آئیں گے کیسے کھلیں گے پھول
زخموں کی آگ دل میں اگر مستقل نہیں
وہ تو ہماری بات کو سمجھیں گے کس طرح
جن کا دماغ تو ہے مگر جن کا دل نہیں
کیا خوب انہماک ہے محو خیال کا
طالبؔ خدا کی ذات بھی اس میں مخل نہیں

طالب چکوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *