Iztirab

Iztirab

بیسویں صدی کا انسان

مجھے سمیٹو 
میں ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں 
نہ جانے میں بڑھ رہا ہوں 
یا اپنے ہی غبار سفر میں ہر پل اتر رہا ہوں 
نہ جانے میں جی رہا ہوں 
یا اپنے ہی تراشے ہوئے نئے راستوں کی تنہائیوں میں ہر لحظہ مر رہا ہوں 
میں ایک پتھر سہی مگر ہر سوال کا بازگشت بن کر جواب دوں گا 
مجھے پکارو مجھے صدا دو 
میں ایک صحرا سہی مگر مجھ پہ گھر کے برسو 
مجھے مہکنے کا ولولہ دو 
میں اک سمندر سہی مگر، آفتاب کی طرح مجھ پہ چمکو 
مجھے بلندی کی سمت اڑنے کا حوصلہ دو 
مجھے نہ توڑو کہ میں گل تر سہی 
مگر اوس کے بجائے لہو میں تر ہوں 
مجھے نہ مارو 
میں زندگی کے جمال اور گہماگہمیوں کا پیامبر ہوں 
مجھے بچاؤ کہ میں زمیں ہوں 
کروڑوں کروڑوں کی کائنات بسیط میں صرف میں ہی ہوں 
جو خدا کا گھر ہوں 

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *