Iztirab

Iztirab

بیوہ کی فریاد

کسی کی یاد دل میں ہے کہ جس سے جی نڈھال ہے 
کہوں اگر تو کیا کہوں عجب طرح کا حال ہے 
نہ وہ زمیں نہ وہ فلک نہ اب وہ کائنات ہے 
وہ زندگی ہی اب نہیں نہ دن ہے وہ نہ رات ہے 
وہ آرزو ہے کون سی جو آج پا بہ گل نہیں 
ہے نام دل کا دل مگر جو سچ کہوں تو دل نہیں 
گھٹا اٹھی تو ہے مگر پپیہا آج گائے کیا 
تڑپ مری مٹائے کیا لگی مری بجھائے کیا 
وہ پریم سے بھرے بچن کہ جن سے کان آشنا 
وہ مست آنکھ مد بھری کہ جس سے جان آشنا 
وہ بات بات پر ہنسی وہ چھیڑ پیار پیار میں 
قرار اک تڑپ میں وہ تڑپ وہ اک قرار میں 
کبھی ادھر سے تاکنا کبھی ادھر سے دیکھنا 
وہ میرے دل کے شوق کو مری نظر سے دیکھنا 
غرض وہ دن کہ جب مرے چمن میں اک بہار تھی 
غرض وہ دن کہ جب خوشی مرے لیے سنگار تھی 
غرض وہ دن کہ نغمہ زن مسرتوں کا ساز تھا 
غرض وہ دن کہ حسن جب مرا نظر نواز تھا 
غرض وہ دن کہ جب سے دل نشان غم کا دور تھا 
غرض وہ دن کہ آنکھ میں بھرا ہوا سرور تھا 
غرض وہ دن کہ میں بھی جب کسی کے دل کا ناز تھی 
غرض وہ دن نیاز کے کہ جب میں بے نیاز تھی 
غرض وہ دن خیال تھا کہ اب نہ جائیں گے کبھی 
چلے گئے کچھ اس طرح کہ پھر نہ آئیں گے کبھی 
غضب یہ ہے شباب میں مرا سہاگ لٹ گیا 
سفر میں تھا جو ہم سفر اسی کا ساتھ چھٹ گیا 
یہ سچ ہے مجھ غریب کا کوئی رفیق اب نہیں 
یہ سچ ہے غم نصیب کا کوئی شفیق اب نہیں 
فغاں میں اب وہ جوش ہے کہ جس کی انتہا نہیں 
جگر میں اب وہ درد ہے کہ جس کی کچھ دوا نہیں 
خیال ہے خزاں میں بھی مجھے اسی بہار کا 
غضب ہے چھوڑتا نہیں فریب انتظار کا 
اجل کی ایک شکل ہے یہ درد اس بلا کا ہے 
دوا کروں تو کیا کروں کہ وقت اب دعا کا ہے 
مری طرح نہ زندگی کسی کی یوں عجیب ہو 
نصیب موت ہو اگر تو زندگی نصیب ہو 

عرش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *