Iztirab

Iztirab

بے سود ہے یہ جوش گریہ اے شمع سحر ہو جانے تک

بے سود ہے یہ جوش گریہ اے شمع سحر ہو جانے تک 
چھینٹا ترے اشک پیہم کا پہنچا نہ کبھی پروانے تک 
اے اہل نظر میری ہستی سب کچھ تھی کبھی اب کچھ بھی نہیں 
زندہ ہوں مگر مہمان بقا اک سانس کے آنے جانے تک 
ہاں غور سے اک خوددار نظر اپنے ہی گریباں پر ناصح 
کیا جانے رہے گا کس حد میں دیوانہ ترے سمجھانے تک 
اے خاک پریشاں کے ذرو آغوش میں تم مجھ کو لے لو 
تمکین و خودی کو ٹھکراتا پہنچا ہوں میں ویرانے تک 
آشفتہ نظام ہستی ہے کچھ اور نہ برہم ہو جائے 
مشاطہ فطرت کے ہاتھوں گیسوئے بتاں سلجھانے تک 
وعدہ ہے مگر کس عالم میں اک شوخ تغافل فطرت کا 
جب لیلئ شب کے بل کھاتے گیسو اتر آئیں شانے تک

دل شاہجہاں پوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *