Iztirab

Iztirab

بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا

بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
تیرے ہوتے اس صفت کا دوسرا ہو جائے گا
شرط کر لو پھر مجھے برباد ہونا بھی قبول
خاک میں مل کر تو حاصل مدعا ہو جائے گا
سر نہ ہوگا دوش پر تو کیا نہ ہوگی گفتگو
ہچکیوں سے شکر قاتل کا ادا ہو جائے گا
سینہ توڑا دل میں چٹکی لی جگر زخمی کیا
کیا خبر تھی تیر بھی تیری ادا ہو جائے گا
میرے کہنے میں ہے دل جب تک مرے پہلو میں ہے
آپ لے لیجے اسے یہ آپ کا ہو جائے گا
ساتھ ان کے جان بھی ارمان بھی جائیں گے آج
صبح سے پہلے روانہ قافلہ ہو جائے گا
میں ملوں تلووں سے آنکھیں وہ کہیں سمجھوں گا میں
یاد رکھ پھیکا اگر رنگ حنا ہو جائے گا
پھر وہی جھگڑے کا جھگڑا ہے اگر قم کہہ دیا
تیغ کا منسوخ سارا فیصلا ہو جائے گا
کس خوشی میں ہائے کیسا رنج پھیلا کیا کروں
کیا خبر تھی ہنستے ہنستے وہ خفا ہو جائے گا
حشر تک کیوں بات جائے کیوں پڑے غیروں کے منہ
گھر میں سمجھوتا ہمارا آپ کا ہو جائے گا
آنکھ سے ہے وصل کا اقرار دل دگدا میں ہے
تم زباں سے اپنی کہہ دوگے تو کیا ہو جائے گا
ظلم سے گر ذبح بھی کر دو مجھے پروا نہیں
لطف سے ڈرتا ہوں یہ میری قضا ہو جائے گا
اس نے چھیڑا تھا مجھے تم جان دوگے کب ہمیں
کہہ دیا میں نے بھی جب وعدہ وفا ہو جائے گا
یوں سوال وصل پر ٹالا کیا برسوں کوئی
صبر کر مضطر نہ ہو تیرا کہا ہو جائے گا
لاکھ دنیا میں حسیں ہوں لاکھ حوریں خلد میں
مجھ کو جو تو ہے وہ کوئی دوسرا ہو جائے گا
توبہ بھی کر لی تھی یہ بھی نشہ کی تھی اک ترنگ
آپ سمجھے تھے کہ بیخودؔ پارسا ہو جائے گا

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *