Iztirab

Iztirab

بے کراں رات کے سناٹے میں

تیرے بستر پہ مری جان کبھی 
بے کراں رات کے سناٹے میں 
جذبۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش 
اور لذت کی گراں باری سے 
ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی 
اور کہیں اس کے قریب 
نیند، آغاز زمستاں کے پرندے کی طرح 
خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے 
اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے 
بے کراں رات کے سناٹے میں
تیرے بستر پہ مری جان کبھی 
آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں 
ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں

ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے 
تو مری جان نہیں 
بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے 
اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں میں 
ایک مدت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی 
کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبکبار کرے
بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر 
اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں میں! 
یہ مرے دل میں خیال آتا ہے 
تیرے بستر پہ مری جان کبھی 
بے کراں رات کے سناٹے میں

ن         م         راشد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *