Iztirab

Iztirab

تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے

تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے
گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے
قافلہ چھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز
یاد آواز جرس رہ رہ کے تڑپا جائے ہے
خود زمانہ رخ ہمارا دیکھتا ہے ہم نہیں
جس طرف مڑتے ہیں ہم دھارا بھی مڑتا جائے ہے
سر جو گردن پر نہیں تو کیا ہتھیلی پر سہی
منزل عشق و جنوں سے یوں ہی گزرا جائے ہے
ہم کہاں ڈوبے تھے یہ کل پوچھیے گا آج تو
کچھ تلاطم سا ابھی موجوں میں پایا جائے ہے
عقل والو کچھ کہو یہ رشتۂ راز حیات
کیوں الجھتا جائے ہے جتنا کہ کھلتا جائے ہے
آ رہا ہوں دوستو ٹھہرو مگر یہ تو بتاؤ
مجھ کو کس گوشہ سے صحرا کے پکارا جائے ہے

نیاز فتح پوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *