Iztirab

Iztirab

تجزیہ

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی جب پاس تو نہیں ہوتی 
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں 
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں 
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے 
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے 
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی رہ رہ کے میرے کانوں میں 
گونجتی ہے تری حسیں آواز 
جیسے نادیدہ کوئی بجتا ساز 
ہر صدا ناگوار ہوتی ہے 
ان سکوت آشنا ترانوں میں 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی شب کی طویل خلوت میں 
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں 
تیری ہر بات سوچتا ہوں میں 
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں 
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں 
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی احساس سے نجات نہیں 
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے 
دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے 
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں 
جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں 
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی شب کی طویل خلوت میں 
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں 
تیری ہر بات سوچتا ہوں میں 
کون سے پھول تجھ کو بھاتے ہیں 
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں 
کھو سا جاتا ہوں تیری جنت میں 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 
پھر بھی احساس سے نجات نہیں 
سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے 
دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے 
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں 
جس کو اس درجہ چاہتا ہوں میں 
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں 
میں تجھے چاہتا نہیں لیکن 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *