تجھ سا نہ تھا کوئی نہ کوئی ہے حسیں کہیں تو بے مثال ہے ترا ثانی نہیں کہیں اپنا جنوں میں مد مقابل نہیں کہیں دامن کہیں جیب کہیں آستیں کہیں زاہد کے سامنے جو ہو وہ نازنیں کہیں دل ہو کہیں حضور کا دنیا و دیں کہیں اک تیرے آستاں پہ جھکی ہے ہزار بار ورنہ کہاں جھکی ہے ہماری جبیں کہیں دل کا لگاؤ دل کی لگی دل لگی نہیں ایسا نہ ہو کہ دل ہی لٹا دیں ہمیں کہیں کیا کہئے کس طرف گئے جلوے بکھیر کے وہ سامنے تو تھے ابھی میرے یہیں کہیں گزرے گی اب تو کوچۂ جاناں میں زندگی رہنا پڑے گا اب ہمیں جا کر وہیں کہیں دل سے تو ہیں قریب جو آنکھوں سے دور ہیں موجود آس پاس ہیں وہ بالیقیں کہیں نظروں کی اور بات ہے دل کی ہے اور بات باتیں جو میرے دل میں ہیں اب تک نہیں کہیں اے تازہ واردان چمن ہوشیار باش بجلی چمک رہی ہے چمن کے قریں کہیں تھا ضمیر اپنی جگہ پر ہے مطمئن اپنا سمجھ کے ان سے جو باتیں کہیں کہیں دل نے بہت کہا کہ تمہیں مہرباں کہوں اس ڈر سے چپ رہا کہ نہ کہہ دو نہیں کہیں آتے ہی ہم تو کوچہ جاناں میں لٹ گئے دل کھو گیا نصیرؔ ہمارا یہیں کہیں
پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ