Iztirab

Iztirab

تجھ سے یوں دوستی نبھاؤں گی

تجھ سے یوں دوستی نبھاؤں گی
اب کبھی لوٹ کر نہ آؤں گی
تو نے چاہی ہے میری بربادی
اب میں آباد ہو نہ پاؤں گی
دیکھ سب کچھ ہی سہہ لیا میں نے
تو نے سوچا تھا ٹوٹ جاؤں گی
دل میں اشکوں کا ایک دریا ہے
ان میں یادیں تری بہاؤں گی
یاد کر کے مجھے تو روۓ گا
میں تجھے اس طرح بھلاؤں گی
اب ترے نام پر نہ دھڑکے گا
دل کو میں بے حسی سکھاؤں گی
جاہ و حشمت کی آرزو کب ہے
میں فقط آبرو بچاؤں گی
راستے میں رہی سدا حائل
اب یہ دیوار ، در بناؤں گی
شب کے تاروں سے روشنی لے کر
اک چراغ سحر جلاؤں گی

عاصمہ فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *