Iztirab

Iztirab

تجھ پہ کھل جائے کہ کیا مہر کو شبنم سے ملا

تجھ پہ کھل جائے کہ کیا مہر کو شبنم سے ملا
آنکھ اے حسن جہاں تاب ذرا ہم سے ملا
وہ مسرت جسے کہتے ہیں نشاط ابدی
اس مسرت کا خزانہ بھی ترے دم سے ملا
وحدت صورت و معنی کو سمجھ اے واعظ
حسن یزداں کا تصور رخ آدم سے ملا
اہل وحشت سے یہ تزئین جہاں کیا ہوتی
یہ سلیقہ بھی ترے گیسوئے برہم سے ملا
ہم نشیں سوز غم دل کہیں محدود نہیں
کبھی شعلوں سے ملا ہے کبھی شبنم سے ملا
لڑکھڑانا بھی ہے تکمیل سفر کی تمہید
ہم کو منزل کا نشاں لغزش پیہم سے ملا
وضع داری اسے کہیے کہ حرم میں بھی روشؔ
خود ہی بڑھ کر کسی غارت گر عالم سے ملا

روش صدیقی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *