Iztirab

Iztirab

تجھ کو لگتا ہے عارضی دکھ ہے

تجھ کو لگتا ہے عارضی دکھ ہے
اس کے چہرے پہ دائمی دکھ ہے
تیرگی سے تو اس کو رغبت ہے
اس کی آنکھوں کی روشنی دکھ ہے
بے ٹھکانہ رہا ہے برسوں سے
اک مسافر کی بے گھری دکھ ہے
اک سمندر ہے جو کہ چاہت کا
اس کے جذبوں کی تشنگی دکھ ہے
کوئی سکھ بھی ملا نہ جیون سے
واسطے اس کے زندگی دکھ ہے
جاں کنی بھی عذاب ہے جس پر
اس سے کہہ دو یہ آخری دکھ ہے
مار کر چھاؤں میں نہیں ڈالا
.ہائے اپنوں کی بے حسی دکھ ہے

عاصمہ فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *