تخاطب ہے تجھ سے خیال اور کا ہے یہ نکتہ وفا میں بڑے غور کا ہے وہ خلوت میں کچھ اور جلوت میں کچھ ہے کرم اس کا مجھ پر عجب طور کا ہے مرا چہرہ بھی میرا چہرہ نہیں ہے یہ احسان مجھ پر مرے دور کا ہے یہ نفرت محبت کا رد عمل ہے کہ مجھ سے تقاضا ترے جور کا ہے نئے دور کی ابتدا کا ہے ضامن کہ دل آئینہ گوشہ ثور کا ہے کراچی میں بھی معتبر ہو رہا ہے سخن میں جو انداز لاہور کا ہے