Iztirab

Iztirab

تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ

تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ 
یاد آوے مجھے جس دم وہ نگمود کا گھاٹ 
زندگانی کا مزہ زیر فلک اب نہ رہا 
یارب ایسا ہو کہ مل جائے کہیں پاٹ سے پاٹ 
فن کشتی میں قیامت ہے وہ بت گاذر کا 
دھوم دیتا ہے مچا آوے ہے جب دھوبی پاٹ 
جاتے ہی وادئ وحشت میں قدم مارا میں 
چمن دہر سے دل اپنا ہوا جب کہ اچاٹ 
خاک دہلی میں کیا جب سے نصاریٰ نے عمل 
شور گوجر ہی رہا اور نہ ہنگامۂ جاٹ 
ترک غمزے کا مگر بر سر سفاکی ہے 
اس کے کوچے سے چلی آتی ہے جب کھاٹ پہ کھاٹ 
قتل عاشق کا جو ہوتا ہے ارادہ اس کو 
پہلے دیکھے ہے خر و گاؤ پہ تلوار کا کاٹ 
کوئی سیکھے بھی قناعت کو تو سگ سے سیکھے 
پڑ رہے ہے وہ بہ یک گوشہ دیا رات کو چاٹ 
روز ہنگامہ ہے اس گنبد نیلی کے تئیں 
مصحفیؔ شک نہیں بگڑا ہے مگر نیل کا ماٹ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *