ہوگی گواہ خاک ہندوستاں ہماری اس کی کیاریوں سے پھوٹی زباں ہماری ہندو ہوں یا مسلماں عیسائی ہوں کہ سکھ ہوں اردو زباں کے ہم ہیں اردو زباں ہماری مرنا بھی ساتھ اس کے جینا بھی ساتھ اس کے ہم اس کے ہیں محافظ یہ پاسباں ہماری خسروؔ کبیرؔ تلسیؔ غالبؔ کی ہیں امانت کیا بے نشان ہوگی پیاری زباں ہماری قند و نبات سے ہے بڑھ کر مٹھاس اس کی ہر دور میں رہی ہے یہ دلستاں ہماری اس میں ٹنکے ہوئے ہیں کتنے حسیں ستارے قوموں کی کہکشاں ہے اردو زباں ہماری پھر چاہتا ہے اس کو دور جہاں مٹانا ہوگی رقم لہو سے پھر داستاں ہماری ہیں جاں سے بھی زیادہ ہم کو عزیز دونوں ہندوستاں ہمارا اردو زباں ہماری وہ بھی تو ایک دن تھا ہم میر کارواں تھے تقلید کر رہا تھا ہر کارواں ہماری ہم تو ہر اک زباں کو دیتے ہیں پیار اپنا پھر کس لئے مٹائے کوئی زباں ہماری ہم ضبط کی حدوں سے آگے نکل چکے ہیں کب تک یہ آزمائش اے آسماں ہماری اعجازؔ مل کے گائیں اردو کا سب ترانہ گونجے فضا میں ہر سو اردو زباں ہماری
اعجاز صدیقی