Iztirab

Iztirab

ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال

ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال 
گر مار ڈالنا ہے تو یک بار مار ڈال 
عاشق جو تیری زلف کا ہو اس کو تو صنم 
لے جا کے تیرہ شب پس دیوار مار ڈال 
کبک دری کے لاکھ قفس ہوں جہاں دھرے 
دکھلا کے ان کو شوخی رفتار مار ڈال 
کچھ ہم نے تیرے ہاتھ تو پکڑے نہیں میاں 
گر جانتا ہے ہم کو گنہ گار مار ڈال 
صیاد تجھ کو کس نے کہا تھا کہ فصل گل 
مجھ کو قفس میں کر کے گرفتار مار ڈال 
جو جاں بہ لب ہو حسرت دیدار میں تری 
دکھلا کے اس کو جلوۂ رخسار مار ڈال 
سودائیان عشق کا جھگڑا چکا کہیں 
لے جا کے ان کو برسر بازار مار ڈال 
تیغ و کمند مانگ کر ابرو و زلف سے 
عاشق بہت ہوئے ہیں جفا کار مار ڈال 
گر یہ بھی ہو سکے نہ تو کہتا ہے مصحفیؔ 
دو چار کر لے قید میں دو چار مار ڈال 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *