Iztirab

Iztirab

تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا

تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا
خزاں کے درد میں زخم بہار میں کیا تھا
یہ سوچنا تھا نہ ہو جائیں اس قدر مجبور
یہ دیکھنا تھا ترے اختیار میں کیا تھا
لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے
مگر وہ کاوش مژگان یار میں کیا تھا
ادھر خیال تھا رخسار و چشم و لب کا ادھر
خبر نہیں دل امیدوار میں کیا تھا
نظر کے کانٹے پہ تل کر سبک ہوئے نہ گراں
توازن نگہ نو بہار میں کیا تھا
نگہ میں رمز غزل لب پہ مقطع تمکیں
بیاں تو کیجیے اس اختصار میں کیا تھا
لبوں کو تم نے تو مسعودؔ سی لیا تھا مگر
تبسم نگہ راز دار میں کیا تھا
مسعود حسین خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *