Iztirab

Iztirab

تعارف

خوب پہچان لو اسرار ہوں میں 
جنس الفت کا طلب گار ہوں میں 
عشق ہی عشق ہے دنیا میری 
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں 
خواب عشرت میں ہیں ارباب خرد 
اور اک شاعر بیدار ہوں میں 
چھیڑتی ہے جسے مضراب الم 
ساز فطرت کا وہی تار ہوں میں 
رنگ نظارۂ قدرت مجھ سے 
جان رنگینئ کہسار ہوں میں 
نشۂ نرگس خوباں مجھ سے 
غازۂ عارض و رخسار ہوں میں 
عیب جو حافظ و خیام میں تھا 
ہاں کچھ اس کا بھی گنہ گار ہوں میں 
زندگی کیا ہے گناہ آدم 
زندگی ہے تو گنہ گار ہوں میں 
رشک صد ہوش ہے مستی میری 
ایسی مستی ہے کہ ہشیار ہوں میں 
لے کے نکلا ہوں گہر ہائے سخن 
ماہ و انجم کا خریدار ہوں میں 
دیر و کعبہ میں مرے ہی چرچے 
اور رسوا سر بازار ہوں میں 
کفر و الحاد سے نفرت ہے مجھے 
اور مذہب سے بھی بیزار ہوں میں 
اہل دنیا کے لیے ننگ سہی 
رونق انجمن یار ہوں میں 
عین اس بے سر و سامانی میں 
کیا یہ کم ہے کہ گہر بار ہوں میں 
میری باتوں میں مسیحائی ہے 
لوگ کہتے ہیں کہ بیمار ہوں میں 
مجھ سے برہم ہے مزاج پیری 
مجرم شوخئ گفتار ہوں میں 
حور و غلماں کا یہاں ذکر نہیں 
نوع انساں کا پرستار ہوں میں 
محفل دہر پہ طاری ہے جمود 
اور وارفتۂ رفتار ہوں میں 
اک لپکتا ہوا شعلہ ہوں میں 
ایک چلتی ہوئی تلوار ہوں میں 

اسرار الحق مجاز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *