Iztirab

Iztirab

تقیہ

سو اب یہ شرط حیات ٹھہری 
کہ شہر کے سب نجیب افراد 
اپنے اپنے لہو کی حرمت سے منحرف ہو کے جینا سیکھیں 
وہ سب عقیدے کہ ان گھرانوں میں 
ان کی آنکھوں کے رنگتوں کی طرح تسلسل سے چل رہے تھے 
سنا ہے باطل قرار پائے 
وہ سب وفاداریاں کہ جن پر لہو کے وعدے حلف ہوئے تھے 
وہ آج سے مصلحت کی گھڑیاں شمار ہوں گی 
بدن کی وابستگی کا کیا ذکر 
روح کے عہد نامے تک فسخ مانے جائیں 
خموشی و مصلحت پسندی میں خیریت ہے 
مگر مرے شہر منحرف میں 
ابھی کچھ ایسے غیور و صادق بقید جاں ہیں 
کہ حرف انکار جن کی قسمت نہیں بنا ہے 
سو حاکم شہر جب بھی اپنے غلام زادے 
انہیں گرفتار کرنے بھیجے 
تو ساتھ میں ایک ایک کا شجرۂ نسب بھی روانہ کرنا 
اور ان کے ہم راہ سرد پتھر میں چننے دینا 
کہ آج سے جب 
ہزارہا سال بعد ہم بھی 
کسی زمانے کے ٹیکسلایا ھڑپہ بن کر تلاشے جائیں 
تو اس زمانے کے لوگ 
ہم کو 
.کہیں بہت کم نسب نہ جانیں

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *