Iztirab

Iztirab

تماشا بن گئے

کیا تماشا ہے تماشا گر تماشا بن گئے 
کیا سمجھتے تھے انہیں ہم اور وہ کیا بن گئے 
کیوں نہ مر جائیں مریضان محبت رشک سے 
جو کبھی بیمار تھے وہ خود مسیحا بن گئے 

ان کے چرچے دور حاضر کی سنہری داستاں 
اپنے قصے عہد ماضی کا فسانہ بن گئے 
اب کوئی دیکھے تو کیا سمجھے تو کیا سوچے تو کیا 
جلوے اٹھ کر دیدۂ حیراں کا پردا بن گئے 

جان کر اپنا سر آنکھوں پر بٹھایا تھا جنہیں 
جان کے دشمن وہی جان تمنا بن گئے 
مختصر ہوگا رشیؔ کیوں کر بیان عاشقی 
حال کیا کیا ہو گئے احوال کیا کیا بن گئے 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *