Iztirab

Iztirab

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں 
بہاریں بہت یاں خزاں ہو گئی ہیں 
خبر پس روؤں سے تم ان کی نہ پُوچھو 
جُو روحیں عدم کو رواں ہو گئی ہیں 
نکالی ہیں جُو ہم نے اوج سخن سے 
زمینیں وُہ سب آسماں ہو گئی ہیں 
انہیں فرض ہے تیر کا کس کہ سجدہ 
جُو میوے کی شاخیں کماں ہو گئی ہیں 
وُہ بت قطع کرتا ہے زلفوں کو شاید 
نزاکت پر اس کی گراں ہو گئی ہیں 
ٹک اے باغباں رحم کر بلبلوں پر 
خزاں میں یہ بے آشیاں ہو گئی ہیں 
میں رویا ہوں یاں تک جدائی میں تری 
کے آنکھیں میری ناوداں ہو گئی ہیں 
جُدائی میں اس زلف کی مثل شانہ 
میری انگلیاں استخواں ہو گئی ہیں 
رُخ اس کا میں اے مصحفیؔ کیوں کے دیکھوں 
نگاہیں میری بد گماں ہو گئی ہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *