Iztirab

Iztirab

تمنا بن گئی ہے مایہ الزام کیا ہوگا

تمنا بن گئی ہے مایہ الزام کیا ہوگا
مگر دل ہے ابھی تک تشنہ پیغام کیا ہوگا
وہ بیتاب تماشہ ہی سہی اے تاب نظارہ
لرز اٹھتا ہے دل یہ سوچ کر انجام کیا ہوگا
یہاں جو کچھ بھی ہے وہ پرتو احساس ہے ساقی
بجز بادہ جواب گردش ایام کیا ہوگا
کبھی جس کے یقیں سے کائنات عشق روشن تھی
وہی اب ہے اسیر حلقہ اوہام کیا ہوگا
جنون شوق کا عالم ہمہ مستی سہی لیکن
یہ عالم بھی جواب شوخی پیغام کیا ہوگا
چلے تو ہو مزاج یار کی پرسش کو اے بیکلؔ
مگر یہ سوچ لو انداز استفہام کیا ہوگا
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *