Iztirab

Iztirab

تمہارا ہاتھ جب مرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے

تمہارا ہاتھ جب مرے لرزتے ہاتھ سے چھوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 
وُہ محکم بے لچک وعدہ کھلونے کی طرح ٹوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 
بہار آئی نہ تھی لیکن ہواؤں میں نئے موسم کی خوشبُو رقص کرتی تھی 
اچانک جب کہا تم نے میرے منہ پر مُجھے جھوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 
وُہ کیا دِن تھے یہیں ہم نے بہاروں کی دعا کی تھی کسی نے بھی نہیں سوچا 
چمن والوں نے مل کر جب خود اپنا ہی چمن لوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے
 
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تُو ان پڑھ تھی 
سو جب وُہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 
بہت ہی زور سے پیٹے ہوا کہ بین پر سینے ہمارے خیر خواہوں نے 
کے چاندی کہ ورق جیسا سمے نے جب ہمیں کوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 
نہ رُت تھی آندھیوں کی یہ نہ موسم تھا ہواؤں کا تُو پھر یہ کیا ہوا امجدؔ 
ہر اِک کونپل ہوئی زخمی ہوا مجروح ہر بوٹا خزاں کہ آخری دِن تھے 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *