Iztirab

Iztirab

تمہاری آنکھیں

تمہاری آنکھیں 
تمہاری کالی چمکتی آنکھیں 
زمانے کے ساگر میں 
دو آبنوسی کشتیاں 
جن کی تہہ میں 
تارے جڑے ہوئے ہیں 
پلکوں کے مستول تھرتھراتے ہیں 
ہر گھڑی ہر دم 
ہلتی ڈولتی بہتی چلی جا رہی ہیں 
مت روکو ان کو 
انہیں لمبے دور دراز سفر کرنے دو 
دکھ کی تلملاتی لہروں 
آنسوؤں کے بھنور میں 
پھنسنے دو ان کو 
اور انہیں پھر 
نت نئی انجانی آشاؤں کے 
سنہرے ساحلوں سے 
ٹکرانے دو 
ایسے ویسوں کے پاس انہیں لے جاؤ 
جہاں خوشیوں کے ہیرے 
پتھر کے ساتھ ملے جلے 
چٹئیل میدانوں میں 
بکھرے پڑے ہوئے ہیں 
اور جہاں اونچی نوکیلی سخت 
چٹانوں کے سینے 
چیر کر 
نازک نایاب مہکتے پھول نکل آئے ہیں 
گزرنے دو 
ان مٹیالے بھورے سایوں کے 
نیچے سے ان کو 
جو دل کو ٹھہرا دیتے ہیں 
اور ان آسمانی نیلی 
روشنیوں کی ہلکی مدھم ضو 
پڑنے دو ان پر 
جن سے 
من کے سب اندھیارے 
دھل جاتے ہیں 
آزاد رکھو 
اپنی ان اچھی آنکھوں کو آزاد 
برکھا میں بادل 
صحرا میں آہو 
بن میں جیسے مور پپیہے ہوں 
پھر یہ تمہاری 
کالی آنکھیں 
آبنوس کی دو مہکتی بہکتی کشتیاں 
اندر دھنش کے 
ساتوں رنگوں سے بھر جائیں گی 
اور ہم تم سے پوچھیں گے 
بتاؤ 
یہ دو آنکھیں تمہاری 
ہمیں کیوں اتنی اچھی لگتی ہیں 

سجاد ظہیر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *