Iztirab

Iztirab

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا 
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا 
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں 
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا 
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے 
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا 
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا 
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا 
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت 
تمہاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا 
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق 
کہو وہ تذکرہ ناتمام کس کا تھا 
ہمارے خط کے تو پرزے کئے پڑھا بھی نہیں 
سنا جو تو نے بہ دل وہ پیام کس کا تھا 
اٹھائی کیوں نہ قیامت عدو کے کوچے میں 
لحاظ آپ کو وقت خرام کس کا تھا 
گزر گیا وہ زمانہ کہوں تو کس سے کہوں 
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا 
ہمیں تو حضرت واعظ کی ضد نے پلوائی 
یہاں ارادہ شرب مدام کس کا تھا 
اگرچہ دیکھنے والے ترے ہزاروں تھے 
تباہ حال بہت زیر بام کس کا تھا 
وہ کون تھا کہ تمہیں جس نے بے وفا جانا 
خیال خام یہ سودائے خام کس کا تھا
انہیں صفات سے ہوتا ہے آدمی مشہور 
جو لطف عام وہ کرتے یہ نام کس کا تھا 
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغؔ بے وفا نکلا 
.یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

داغ دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *