Iztirab

Iztirab

تم بھی رہنے لگے خفا صاحب

تم بھی رہنے لگے خفا صاحب 
کہیں سایہ مرا پڑا صاحب 
ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب 
غیر اور تم بھلے بھلا صاحب 
کیوں الجھتے ہو جنبش لب سے 
خیر ہے میں نے کیا کیا صاحب 
کیوں لگے دینے خط آزادی 
کچھ گنہ بھی غلام کا صاحب 
ہائے ری چھیڑ رات سن سن کے 
حال میرا کہا کہ کیا صاحب 
دم آخر بھی تم نہیں آتے 
بندگی اب کہ میں چلا صاحب 
ستم آزار ظلم و جور و جفا 
جو کیا سو بھلا کیا صاحب 
کس سے بگڑے تھے کس پہ غصہ تھا 
رات تم کس پہ تھے خفا صاحب 
کس کو دیتے تھے گالیاں لاکھوں 
کس کا شب ذکر خیر تھا صاحب 
نام عشق بتاں نہ لو مومنؔ 
.کیجئے بس خدا خدا صاحب

مومن خان مومن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *