Iztirab

Iztirab

تم نہیں آئے تھے جب

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم 
آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت 
درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح 
بے وفا وعدوں کی دل داری کا انداز لیے 
تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے 
رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح 
صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح 
شاخ خوں رنگ تمنا میں گل تر کی طرح 
تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے 
یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت 
غم کے پیمانۂ سر شار کو چھلکاتے ہوئے 
برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے 
دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے 
زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ 
شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ 
روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام 
روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق 
آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو 
اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو 
کہ مرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں 
ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں 

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *