Iztirab

Iztirab

تم نے جس دن کہ لیے اپنے جگر چاک کیے

تم نے جس دن کے لیے اپنے جگر چاک کیے
سو برس بعد سہی دن تو وہ آیا آخر
تم نے جس دشت تمنا کو لہو سے سینچا
ہم نے اُس کو گل و گلزار بنایا آخر
نسل در نسل رہی جہدِ مسلسل کی تڑپ
ایک اک بوند نے طوفان اٹھایا آخر
تم نے اک ضرب لگائی تھی حصار شب پر
ہم نے ہر ظلم کی دیوار کو ڈھایا آخر
وقت تاریک خرابوں کا وہ عفریت ہے جوہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پیتا ہے
زلفِ آزادی کے ہر تار سے دستِ ایام
حریت کیش جوانوں کے کفن سیتا ہے
تم سے جس دورِ المناک کا آغاز ہُوا
ہم پہ وہ عہدِ ستم ایک صدی بیتا ہے
تم نے جو جنگ لڑی ننگِ وطن کی خاطر
مانا اس جنگ میں تم ہارے عدو جیتا ہے
لیکن اے جذبِ مقدس کے شہیدانِ عظیم
کل کی ہار اپنے لیے جیت کی تمہید بنی
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑے پھر بھی بڑھے
وادیِ مرگ بھی منزل گہہِ امید بنی
ہاتھ کٹتے رہے پر مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو تم سے چلی باعثِ تقلید بنی
شب کے سفّاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو
.جو کرن قتل ہوئی شعلۂ خورشید بنی

احمد فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *