Iztirab

Iztirab

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں 
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں 
کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں 
ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں 
ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی 
گونج رہی ہے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں 
غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں 
تو پھر تو ہے میرا تو سایہ بھی میرے ساتھ نہیں 
مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ہے 
لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں 
ختم ہوا میرا فسانہ اب یہ آنسو پونچھ بھی لو 
جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں 
میرے غمگیں ہونے پر احباب ہیں یوں حیران قتیلؔ 
جیسے میں پتھر ہوں میرے سینے میں جذبات نہیں 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *