Iztirab

Iztirab

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے
پیغام ملا تھا جو حسین ابن علی کو
خوش ہوں وہی پیغام قضا میرے لیے ہے
یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لیے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لیے ہے
میں کھو کے تری راہ میں سب دولت دنیا
سمجھا کہ کچھ اس سے بھی سوا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخیٔ خون شہدا میرے لیے ہے
راحل ہوں مسلمان بصد نعرہ تکبیر
یہ قافلہ یہ بانگ درا میرے لیے ہے
انعام کا عقبیٰ کے تو کیا پوچھنا لیکن
دنیا میں بھی ایماں کا صلا میرے لیے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لیے ہے
اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لیے ہے
اللہ کے رستہ ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لیے ہے
اے چارہ گرو چارہ گری کی نہیں حاجت
یہ درد ہی داروئے شفا میرے لیے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
جو صحبت اغیار میں اس درجہ ہو بے باک
اس شوخ کی سب شرم و حیا میرے لیے ہے
ہے ظلم ترا عام بہت پھر بھی ستم گر
مخصوص یہ انداز جفا میرے لیے ہے
ہیں یوں تو فدا ابر سیہ پر سبھی مے کش
پر آج کی گھنگھور گھٹا میرے لیے ہے

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *