Iztirab

Iztirab

تناسخ

جب ایک سورج غروب ہوتا ہے
کم نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں
اب اندھیرا زمیں کی تقدیر ہو گیا ہے
زمانہ زنجیر ہو گیا ہے
انہیں خبر کیا
کہ مہر و ماہ و نجوم سارے
تو روشنی کے ہیں استعارے
طلوع کا دل فروز منظر
غروب کا دل شکن نظارہ
ازل سے اس روشنی کا پرتو ہے
جو مسلسل سفر کے عالم میں
ہر مکاں لا مکاں کو اپنے جلو میں لے کر
رواں دواں ہے
یہ رات اور دن
ہر ایک ظاہر ہر ایک باطن
ہر ایک ممکن
اسی تسلسل کا زیر و بم ہے
نگار فطرت کا حسن رم ہے
افق افق پر یہی رقم ہے
کہ جو عدم ہے
وہ زندگی کا نیا جنم ہے
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *