Iztirab

Iztirab

تنہائی میں

میرے شانوں پہ ترا سر تھا نگاہیں نمناک
اب تو اک یاد سی باقی ہے سو وہ بھی کیا ہے
گھر گیا ذہن غم زیست کے اندازوں میں
ہر ہتھیلی پہ دھرے سوچ رہا ہوں بیٹھا
کاش اس وقت کوئی پیر خمیدہ آ کر
کسی آزردہ طبیعت کا فسانہ کہتا
اک دھندلکا سا ہے دم توڑ چکا ہے سورج
دن کے دامن پہ ہیں دھبے سے ریا کاری کے
اور مغرب کی فنا گاہ میں پھیلا ہوا خوں
دبتا جاتا ہے سیاہی کی تہوں کے نیچے
دور تالاب کے نزدیک وہ سوکھی سی ببول
چند ٹوٹے ہوئے ویران مکانوں سے پرے
ہاتھ پھیلائے برہنہ سی کھڑی ہے خاموش
جیسے غربت میں مسافر کو سہارا نہ ملے
اس کے پیچھے سے جھجکتا ہوا اک گول سا چاند
ابھرا بے نور شعاعوں کے سفینہ کو لیے
میں ابھی سوچ رہا ہوں کہ اگر تو مل جائے
زندگی گو ہے گراں بار پہ اتنی نہ رہے
چند آنسو غم گیتی کے لیے چند نفس
ایک گھاؤ ہے جسے یوں ہی سیے جاتے ہیں
میں اگر جی بھی رہا ہوں تو تعجب کیا ہے
مجھ سے لاکھوں ہیں جو بے سود جیے جاتے ہیں
کوئی مرکز ہی نہیں میرے تخیل کے لیے
اس سے کیا فائدہ جیتے رہے اور جی نہ سکے
اب ارادہ ہے کہ پتھر کے صنم پوجوں گا
تاکہ گھبراؤں تو ٹکرا بھی سکوں مر بھی سکوں
ایسے انسانوں سے پتھر کے صنم اچھے ہیں
ان کے قدموں پہ مچلتا ہو دمکتا ہوا خوں
اور وہ میری محبت پہ کبھی ہنس نہ سکیں
میں بھی بے رنگ نگاہوں کی شکایت نہ کروں
یا کہیں گوشہ اہرام کے سناٹے میں
جا کے خوابیدہ فراعین سے اتنا پوچھوں
ہر زمانے میں کئی تھے کہ خدا ایک ہی تھا
اب تو اتنے ہیں کہ حیران ہوں کس کو پوجوں
اب تو مغرب کی فنا گاہ میں وہ سوگ نہیں
عکس تحریر ہے اک رات کا ہلکا ہلکا
اور پر سوز دھندلکے سے وہی گول سا چاند
اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا
ابھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا
جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہوگی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا
آئینہ بن کے شب و روز تکا کرتا ہے
کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا
یوں گزارے سے گزر جائیں گے دن اپنے بھی
پر یہ حسرت ہی رہے گی کہ گزارے نہ گئے
خون پی پی کے پلا کرتی ہے انگور کی بیل
گر یہی رنگ تمنا تھا چلو یوں ہی سہی
خون پیتی رہی بڑھتی رہی کونپل کونپل
چھاؤں تاروں کی شگوفوں کو نمو دیتی رہی
نرم شاخوں کو تھپکتے رہے ایام کے ہاتھ
یوں ہی دن بیت گئے صبح ہوئی شام ہوئی
اب مگر یاد نہیں کیا تھا مآل امید
ایک تحریر ہے ہلکی سی لہو کی باقی
بیل پھلتی ہے تو کانٹوں کو چھپا لیتی ہے
زندگی اپنی پریشاں تھی پریشاں ہی رہی
چاہتا یہ تھا مرے زخم کے انگور بندھیں
یہ نہ چاہا تھا مرا جام تہی رہ جائے
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہوگی کوئی مجھ سا ہے یہ بھی تنہا
گھر گیا ذہن غم زیست کے اندازوں میں
کیسا تالاب ہے جو اس کو ہرا کر نہ سکا
کاش اس وقت کوئی پیر خمیدہ آ کر
میرے شانوں کو تھپکتا غم تنہائی میں
اختر الایمان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *