Iztirab

Iztirab

توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا

توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا 
پی    اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا 
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم 
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا 
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں 
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا 
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب 
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا 
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم
آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے 
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا 
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں 
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا 
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا 
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *