Iztirab

Iztirab

تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے

تو مجھے کس کے بنانے کو مٹا بیٹھا ہے 
میں کوئی غم تو نہیں تھا جسے کھا بیٹھا ہے 
بات کچھ خاک نہیں تھی جو اڑائی تو نے 
تیر کچھ عیب نہیں تھا جو لگا بیٹھا ہے 
میل کچھ کھیل نہیں تھا جو بگاڑا تو نے 
ربط کچھ رسم نہیں تھا جو گھٹا بیٹھا ہے 
آنکھ کچھ بات نہیں تھی جو جھکائی تو نے 
رخ کوئی راز نہیں تھا جو چھپا بیٹھا ہے 
نام ارمان نہیں تھا جو نکالا تو نے 
عشق افواہ نہیں تھا جو اڑا بیٹھا ہے 
لاگ کچھ آگ نہیں تھی جو لگا دی تو نے 
دل کوئی گھر تو نہیں تھا جو جلا بیٹھا ہے 
رسم کاوش تو نہیں تھی جو مٹا دی تو نے 
.ہاتھ پردہ تو نہیں تھا جو اٹھا بیٹھا ہے

مضطر خیرآبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *