Iztirab

Iztirab

تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے

تو نے نظروں کو بچا کر اس طرح دیکھا مجھے 
کیوں نہ کر جاتا بھری محفل میں دل تنہا مجھے 
شاخ در شاخ اب کوئی ڈھونڈا کرے پتہ مجھے
میں تو خود ٹوٹا ہوں آندھی نے نہیں توڑا مجھے 
لغزش پا نے دیا ہر راہ میں دھوکا مجھے 
تا در منزل تو ہی اے جذب دل پہنچا مجھے 
صورت آئینہ حیرت سے وہ تکتا رہ گیا 
آئنہ خانے میں جس نے غور سے دیکھا مجھے 
مار ہی ڈالے گی اک دن کاروبار زیست میں 
تنگ دامانی تری اے وسعت دنیا مجھے 
عمر بھر ملتی رہی تیری عدالت سے نہ پوچھ 
میری نا کردہ گناہی کی سزا کیا کیا مجھے 
برگ گل پر رقص شبنم کا یہ منظر اے ضیاؔ 
اب تو آتا ہے نظر ہر قطرے میں دریا مجھے 

ضیا فتح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *