Iztirab

Iztirab

تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ

تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ 
اب وہی ہے لالۂ زرد خزان ریختہ 
آگے کچھوے کی کماں کے قدر کیا اس کی رہی 
تھی فرید آبادی اپنی گو کمان ریختہ 
خشک کرتے ہیں جو فکر خشک سے اپنا دماغ 
جانتے ہیں اس کو مغز ستخوان ریختہ 
پیچ دے دے لفظ و معنی کو بناتے ہیں کلفت 
اور وہ پھر اس پہ رکھتے ہیں گمان ریختہ 
فہم میں اتنا نہیں آتا بحکم رائے پست 
اس بلندی سے گھٹی جاتی ہے شان ریختہ 
خوان یغما بن کے پہنچا ہر کس و ناکس کے ہاتھ 
نطع سلطاں جو تھا مخصوص خوان ریختہ 
ہے رگ ابر بہاری ہاتھ میں میرے قلم 
رشک جنت جس سے ہے یہ گلستان ریختہ 
فارسی اب ہو گئی ہے ننگ اس کے واسطے 
فارسی کا ننگ تھا جیسے قرآن ریختہ 
چاند تارے کا دوپٹا میں دیا اس کو بنا 
ورنہ اس زینت سے کب تھا آسمان ریختہ 
رفتہ رفتہ ہائے اس کا اور عالم ہو گیا 
نظم سے اپنی گرا نظم بیان ریختہ 
جب سے معنی بندی کا چرچا ہوا اے مصحفیؔ 
خلطے میں جاتا رہا حسن زبان ریختہ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *