Iztirab

Iztirab

تھے خواب ایک ہمارے بھی اُور تمہارے بھی

تھے خواب ایک ہمارے بھی اُور تمہارے بھی 
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی 
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے 
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی 
سوال یہ ہے کے آپس میں ہم ملیں کیسے 
ہمیشہ ساتھ تُو چلتے ہیں دو کنارے بھی 
کسی کا اپنا مُحبت میں کچھ نہیں ہوتا 
کے مشترک ہیں یہاں سود بھی خسارے بھی 
بگاڑ پر ہے جُو تنقید سب بجا لیکن 
تمہارے حصے کہ جُو کام تھے سنوارے بھی 
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے 
جُو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی 
پہ جیسے ریل میں دو اجنبی مسافر ہوں 
سفر میں ساتھ رہے یُوں تُو ہم تمہارے بھی 
یہی سہی تیری مرضی سمجھ نہ پائے ہم 
خُدا گواہ کے مبہم تھے کچھ اشارے بھی 
یہی تُو ایک حوالہ ہے مرے ہونے کا 
یہی گراتی ہے مُجھ کو یہی اتارے بھی 
اِسی زمین میں اِک دِن مُجھے بھی سونا ہے 
اسی زمیں کی امانت ہیں مرے پیارے بھی 
وُہ اب جُو دیکھ کہ پہچانتے نہیں امجدؔ 
.ہے کل کی بات یہ لگتے تھے کچھ ہمارے بھی 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *