Iztirab

Iztirab

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشم تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر باہر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے
جوں شرر اے ہستی بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاو
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
.کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے

خواجہ میر درد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *