Iztirab

Iztirab

تیری یاد میں کب قیامت نہ ٹوٹی ترے غم میں کب حشر برپا نہ دیکھا

تری یاد میں کب قیامت نہ ٹوٹی ترے غم میں کب حشر برپا نہ دیکھا
بجز اک نگاہ مسیحا نفس کے محبت کے ماروں نے کیا کیا نہ دیکھا
بہت سیر کی باغ جنت کی ہم نے مگر کچھ مزا زندگی کا نہ دیکھا
کسی دل میں درد محبت نہ پایا کسی دل میں داغ تمنا نہ دیکھا
بہت مرد میداں بھی دنیا میں دیکھے شجاعت پہ نازاں بھی دنیا میں دیکھے
مگر چوٹ سہہ جائے تیر نظر کی یہ دل یہ کلیجا کسی کا نہ دیکھا
یہی ہے نظارہ تو کیا ہے نظارہ نہ شان جمالی نہ شان جلالی
یہ دھندلا سا پرتو یہ مستور جلوہ برابر ہے ہم کو تو دیکھا نہ دیکھا
جنون محبت میں دیوانگی میں تری بے رخی کا بھی میں قدرداں ہوں
بڑا تو نے احسان مجھ پر کیا یہ تماشا بنا کر تماشا نہ دیکھا
ترے آستاں کا پتہ کس سے پائیں کرے رہبری کون بھٹکے ہوؤں کی
یہ راہ طلب ہے کہ راہ عدم ہے کسی کا بھی نقش کف پا نہ دیکھا
محبت کہاں یہ تو بے چارگی ہے ستم بھی سہیں پھر کرم اس کو سمجھیں
یہ جبر اس لیے کر لیا ہے گوارا کہ اس کے سوا کوئی چارا نہ دیکھا
نیاز محبت سے یہ بے نیازی خلوص محبت سے اتنا تغافل
مرا درد تم نے مرا حال تم نے نہ جانا نہ سمجھا نہ پوچھا نہ دیکھا
تمہیں جوشؔ ہم خوب پہچانتے ہیں تمہاری بلا نوشیاں جانتے ہیں
کہاں تم کہاں پارسائی کا جامہ کبھی ہم نے ایسا دکھاوا نہ دیکھا

جوش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *