تری یاد میں کب قیامت نہ ٹوٹی ترے غم میں کب حشر برپا نہ دیکھا بجز اک نگاہ مسیحا نفس کے محبت کے ماروں نے کیا کیا نہ دیکھا بہت سیر کی باغ جنت کی ہم نے مگر کچھ مزا زندگی کا نہ دیکھا کسی دل میں درد محبت نہ پایا کسی دل میں داغ تمنا نہ دیکھا بہت مرد میداں بھی دنیا میں دیکھے شجاعت پہ نازاں بھی دنیا میں دیکھے مگر چوٹ سہہ جائے تیر نظر کی یہ دل یہ کلیجا کسی کا نہ دیکھا یہی ہے نظارہ تو کیا ہے نظارہ نہ شان جمالی نہ شان جلالی یہ دھندلا سا پرتو یہ مستور جلوہ برابر ہے ہم کو تو دیکھا نہ دیکھا جنون محبت میں دیوانگی میں تری بے رخی کا بھی میں قدرداں ہوں بڑا تو نے احسان مجھ پر کیا یہ تماشا بنا کر تماشا نہ دیکھا ترے آستاں کا پتہ کس سے پائیں کرے رہبری کون بھٹکے ہوؤں کی یہ راہ طلب ہے کہ راہ عدم ہے کسی کا بھی نقش کف پا نہ دیکھا محبت کہاں یہ تو بے چارگی ہے ستم بھی سہیں پھر کرم اس کو سمجھیں یہ جبر اس لیے کر لیا ہے گوارا کہ اس کے سوا کوئی چارا نہ دیکھا نیاز محبت سے یہ بے نیازی خلوص محبت سے اتنا تغافل مرا درد تم نے مرا حال تم نے نہ جانا نہ سمجھا نہ پوچھا نہ دیکھا تمہیں جوشؔ ہم خوب پہچانتے ہیں تمہاری بلا نوشیاں جانتے ہیں کہاں تم کہاں پارسائی کا جامہ کبھی ہم نے ایسا دکھاوا نہ دیکھا
جوش ملسیانی