Iztirab

Iztirab

تیرے خطوں کی خوشبو

تیرے خطوں کی خوشبو 
ہاتھوں میں بس گئی ہے سانسوں میں رچ رہی ہے 
خوابوں کی وسعتوں میں اک دھوم مچ رہی ہے 
جذبات کے گلستاں مہکا رہی ہے ہر سو 
تیرے خطوں کی خوشبو 
تیرے خطوں کی مجھ پر کیا کیا عنایتیں ہیں 
بے مدعا کرم ہے بے جا شکایتیں ہیں 
اپنے ہی قہقہوں پر برسا رہی ہے آنسو 
تیرے خطوں کی خوشبو 
تیری زبان بن کر اکثر مجھے سنائے 
باتیں بنی بنائی جملے رٹے رٹائے 
مجھ پر بھی کر چکی ہے اپنی وفا کا جادو 
تیرے خطوں کی خوشبو 
سمجھے ہیں کچھ اسی نے آداب چاہتوں کے 
سب کے لیے وہی ہیں القاب چاہتوں کے 
سب کے لیے برابر پھیلا رہی ہے بازو 
تیرے خطوں کی خوشبو 
اپنے سوا کسی کو میں جانتا نہیں تھا 
سنتا تھا لاکھ باتیں اور مانتا نہیں تھا 
اب خود نکال لائی بیگانگی کے پہلو 
تیرے خطوں کی خوشبو 
کیا جانے کس طرف کو چپکے سے مڑ چکی ہے 
گلشن کے پر لگا کر صحرا کو اڑ چلی ہے 
روکا ہزار میں نے آئی مگر نہ قابو 
تیرے خطوں کی خوشبو 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *