Iztirab

Iztirab

تیر جیسے کمان کے آگے

تیر جیسے کمان کے آگے 
موت کڑیل جوان کے آگے 
بادشاہ اور فقیر دونوں تھے 
شہر میں اک دکان کے آگے 
چلتے چلتے زمین رک سی گئی 
ناگہاں اک مکان کے آگے 
ہم بھی اپنا مجسمہ رکھ آئے 
رات اندھی چٹان کے آگے 
طشت جاں میں سجا کے رکھنا تھا 
حرف دل میہمان کے آگے 
کیا عجب شخص ہے کہ بیٹھا ہے 
دھوپ میں سائبان کے آگے 
ہم کسی کو گواہ کیا کرتے 
اس کھلے آسمان کے آگے 
کب تلک جھوٹ بولتے صاحب 
اس طرح خاندان کے آگے 
کون کہتا رساؔ خدا لگتی 
ایسے کافر گمان کے آگے 

رسا چغتائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *