Iztirab

Iztirab

تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا

تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا 
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا 
کی ذرا دست جنوں نے کوتہی 
چاک آ کر تا بہ داماں رہ گیا 
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ 
جادہ راہ بیاباں رہ گیا 
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں 
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا 
ہم تو پہنچے بزم جاناں تک مگر 
شکوہ بیداد درباں رہ گیا 
کیا قیامت ہے کہ کوئے یار سے 
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا 
دوسروں پر کیا کھلے راز دہن 
جبکہ خود صانع سے پنہاں رہ گیا 
جذبۂ دل کا ذرا دیکھو اثر 
تیر نکلا بھی تو پیکاں رہ گیا 
جامہ ہستی بھی اب تن پر نہیں 
دیکھ وحشی تیرا عریاں رہ گیا 
ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے 
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا 
اے جنوں تجھ سے سمجھ لوں گا اگر 
ایک بھی تار گریباں رہ گیا 
حسن چمکا یار کا اب آفتاب 
اک چراغ زیر داماں رہ گیا 
لوگ پہنچے منزل مقصود تک 
میں جرس کی طرح نالاں رہ گیا 
یاد رکھنا دوستو اس بزم میں 
.آ کے شبلیؔ بھی غزل خواں رہ گیا

علامہ شبلی نعمانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *